Punjabi Script and Punjabi Language
پنجابی زبان اور رسم الخط
کہتے ہیں آگ لینے آئی اور گھر والی بن بیٹھی۔ بندہ پوچھے کہ اردو نے اپنا رسم الخط کہاں سے لیا ، اسے یاد نہیں کہ اس نے اپنا جنم کس کی گود میں لیا، وہ دن بھول گئے جب اسی پنجاب کی سر زمین پر پنجابی کے ہاتھوں میں اس کی پرورش شروع ہوئی ، کبھی لاہوری اردو یا ملتانی کہلائی۔ اس کے بعد یہ دلِّی ( 17 صدی اُردو کی پیدائش )جا کے نکھری ہوئی اردو کہلانے لگ گئی اور آج بھی دیکھا جائے تو ریختی زبان یا دَکنّی اردو میں پرانی پنجابی کی اردو کے چوکھے لفظ اورمحاورے مِل جائیں گے۔ 1000ء میں پنجاب میں لاہنڈا اپبھرنشا اور دہلی کی طرف کھڑی بولی اپبھرنشا بولی جاتی تھی۔ اردو زبان کھڑی بولی اپبھرنشا اوربرج بھاشا سے مل کر ترقی کی منزلیں طے کرتی ہے اور پنجابی لاہنڈا اپبھرنشا سے ترقی پاتی ہے۔ شروع شروع میں جب اسلامی حکومت ابھی پنجاب میں ہی تھی تو یہ لشکر کی زبان بن چلی تھی اور یہی کچّی اردو جب دہلی سے منتقل ہو کر تیرھویں صدی عیسوی کے آخر میں دکن جا کر 1347ء میں علحٰدہ باہمنی خاندان کے قائم ہونے سے وہاں مقید ہو گئی تو اُس پر کھڑی بولی کا اثر کم ہو گیا اور اس طرح پنجابی کی کئی خصوصیات دکنی اردو میں اب تک موجود ہیں ۔ گو 1686-1687ء یعنی دکنی مسلم بادشاہت کے خاتمہ کے بعد شمالی اردو نے ادبی دکنی اردو کو اپنے قریب کر لیا اور اس طرح یہ تفاوت رفع کر دیا۔
چونکہ اردو کا ماحول زیادہ تر دہلی اور آگرہ کی طرف رہا اس لئے پنجابی کی ترقی اردو سے مختلف رہی۔ گو پنجابی اور اردو پر غلبہ سوراسینی پراکرت کا ہی ہے مگر ان کی ترقی کی منزلیں علحٰدہ رہیں۔ پنجابی کی گرامر گو اردو سے بنیادی معاملات میں اکثر ملتی ہے مگر پنجابی کے الفاظ کا ذخیرہ اسقدر فرق کر جاتا ہے کہ زبان اور بولی کو آپس میں فرق کرنےکے اصولوں کے مطابق ہمیں لازماً پنجابی کو علحٰدہ زبان قرار دینا پڑتا ہے۔
یہاں یہ سب کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پنجاب میں یہ پنجابی تھے جنہوں نے فارسی رسم الخط میں تین حرف "ٹ۔ ڈ۔ ڑ" زیادہ کرکے نیا رسم الخط بنایا تھا۔ جو کہ آج کل اردو رسم الخط کہلاتا ہے۔ یہ عجب بات ہے کہ پنجاب ہی آج اپنی پنجابی کے لئےنئے رسم الخط کی تلاش میں نِکلے۔ اس وقت پنجابی کے پرانے خط "خردشتی" اور "ٹاکری(لنڈا)" یا تو مُردہ ہو چکے تھے یا اُن میں وہ لِسانی رنگ نہیں رہا تھا جو عربی اورفارسی کے نئے آئے ہوئے الفاظ نے پیدا کر دیا تھا۔سِکھّوں کے دوسرے گورُو اَنگد نے جوگرنتھ کے لئےگرومکھی خط کو بنایا سنوارا تو وہ اس لئے نہیں کہ پنجابی کے لئے یہ موجودہ اردو والا رسم الخط کارآمد نہیں تھابلکہ یہ اس مِثل پر تھا کہ اگرتجارت حکومت کے جھنڈے کےساتھ ساتھ ترقّی کرتی ہے تواسی ہی طرح اَبجد بھی مذہب کےپیچھے ہو جاتی ہے۔
یہی رسم الخط جسے عام طور پراردو رسم الخط کہا جاتاہے اصل میں پنجابی رسم الخط ہے یہ دوسری بات ہے کہ اردو نے اس خط کو کس طرح اپنا بنا لیا، آخر اپنا بنائے ہی اپنا بنتا ہے ورنہ اپنا بھی پرایا ہو جاتا ہے۔
مسلمانوں کی آمد سے پہلے پنجاب کا علاقہ بیاس سے گجنی (غزنی ) کی دیواروں تک تھا، اور اسے سپت سندھو یا ستّ دریاؤں کا مُلک کہا جاتاتھا۔ اس میں بیاس، راوی، جہلم، سندھ اور اٹک کے دریا شامل تھے۔ پھر سِندھ اور اٹک باہر ہو گۓ کیونکہ اُن کی بولی اوررہت میں بہت فرق تھا، یوں اس کا نام پَنج ند ہوگیا ۔ جب کابل کے راستے مسلمان پنجاب میں آۓ تو اُنہوں نے اس کا نام پَنج ند کی بجائے پنجاب (پنج آب) رکھ دیا اور یہ نام سب کے دلوں میں گھر کر گیا۔
سَر جی ۔اے ۔ گریرسن کی ہندوستان میں سرکاری طور پر کی گئی سروے رپورٹ (1920) کے مطابق 872 اصلی زبانیں اور ان کی مختلف فرعی بولیاں یا مقامی بولیاں ہیں ،اور 506 ان ہی کی بِگڑی ہوئی بولیاں ہیں، اور ان کا اوپر ذکرکی گئی زبانوں سےکوئی تعلق نہیں اوراس لئے بالکل علحدٰہ شمار ہوتی ہیں، اس طرح کل 1503 بولیوں کا سروے میں ذکر ہے۔ پنجابی ان میں سے ہی ایک زبان ہے۔
پنجابی کا کوئی خاص رسم الخط نہیں مِلتا ، پر پُرانی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ مہاجن پیشہ آدمی اپنے حساب کتاب کو لنڈا رسم الخط میں لکھتے تھے ، یہ الفاظ لنڈا اس لئے استعمال ہُوتے تھےکیوں کے یہ مختصر تھے( اس لفظ کا "لاہنڈا" زبان سےکوئی تعلق نہیں ) ، یہ لنڈا رسم الخط اسی طرح ہے جس طرح سندھ میں"بنیا" یا "وانِیکو" ، مارواڑ میں مہاجنی اورپنجاب کی پہاڑیاں میں ٹاکری رسم الخط رائج ہے، خیال ہے کہ یہ سارے رسم الخط سنسکرت کی بگڑی ہوئی شکل ہیں۔
پنجاب کی بولی مسلمانوں کے آنے کے بعد بھی ہِندی ( ہندی حقیقت میں کوئی زبان نہیں ہے ۔ ہِندی یا تو ہِندوی تھی یا جغدالی یعنی جٹکی ڈیرہ غازی خاں کی ہے یا ہندکی یعنی گریرسن کی 428 نمبر کی بولی۔ اس کے علاوہ ہِندی کوئی علحٰدہ زبان کا نام نہیں ہے۔سرگریرسن کے نظریہ کے مطابق وہ ہر پراکرت کو ہندی کہتا ہے، اور اسطرح اس نے اس ہندی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ اول مشرقی ہندی جس سے اُسکی مُراد اردھ مگھدی ہے، یا یوں کہیں کہ مشرقی ہندی کی پیدائش اردھ مگھدی سے ہوئی اور اس کی دیواریں اودھی تا بگھیلی اور چھتی گڈھی پراکرتوں پر استوار کی ہے۔ دوسری قسم پچھائن ہندی یعنی مغربی ہندی جو سوراسینی پراکرت پر مبنی ہے اور بعینہ اُردو ہے ، مگر رسم الخط ناگری قرار دے دیا۔ اس کو کھڑی بولی بھی کہتے ہیں ۔ یہ تقسیم 1801ء میں اس مؤرخ اورحکومت کی حکمت عملی اور دُور اندیشی پر مبنی ہے جو ہندو مسلم نفاق کا باعث ہوا) ہی کہلاتی تھی، جب مسلمان اس علاقے میں آۓ تو انہوں نے مذہب کے پرچار کے لئے پنجابی کو عربی یا فارسی لِپی میں لکھنا شروع کردیا۔ نانک کے زمانہ میں فارسی کا اثر نمایاں طور پر ہونے لگ گیا ۔ اکبر کی حکومت تک سرکاری حساب کتاب ملک کی دیسی زبانوں میں رکھا جاتا تھا، مگر اندازاً 1500ء میں سلطان سکندر لودھی کے زمانہ میں ہندو بھی فارسی زبان میں لکھنے لگ گئے، یہاں تک کہ اٹھارویں صدی کا تقریباً آدھا فارسی ادب ہندوؤں کا لکھا ہؤا ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اردو زبان کے پیدا کرنے میں ہندٴؤں کا بہت ہاتھ ہے جیہنوں نے اس طرح پہلے پہل فارسی کو اپنایا، ورنہ اردو شاید شاہجہان کے زمانہ میں اس طرح ساخت نہ پکڑتی۔ پنجاب کے باہر سنسکرت اور دوسری بھاشاؤں میں لکھی ہوئی مذہبی کتابیں خصوصاً ویشنومت کی اور دوسری روایتی شاعری کا فارسی میں ترجمہ ہونا شروع ہو گیا۔ہندو شروع سےسنسکرت ، پراکرت، اُپ بھرنش یا ہندی کے نزدیک رہے سکھوں نے بھی وہی رنگ روپ لے لیا، لیکن مسلمان اپنے خمیر کو بھُول نہ سکے اور ان کی پنجابی بُولی پرعربی فارسی کا اثر رہا۔ برہمن کھشتری اورشودر وغیرہ ہندی کے لفظوں کو اپنی ضرورت کے مطابق ماتراں یعنی اعراب کےبغیر جس کو لنڈے یا مہاجنی کہتے تھےلکھنے لگ گئے۔ پنجابی کو گورونانک کے مرنے کے کوئی 92 سال بعد اُن کی تعلیم کوشکل دینے کے لئے گورمکھی یعنی گورو کے مُکھ سےنکلی نام دے دِیا۔ سکھوں کے دوسرے گورو انگد ( 1538 توں 1552)نے لنڈے شاردا اور ٹھاکری کو سامنے رکھ کے اس سارے جوڑ میل کو گورمکھی کا نام دے دیا ، یہ نام اس لئےرکھا گیا کیونکہ گرو کے مُکھ یعنی مُنہ سے نکلے الفاظ یعنی گرنتھ صاحب اس میں لکھا گیا۔اس میں انہوں نے آوازیں تو وہی رکھیں جو لنڈے کی تھیں لیکن شکل سنوارنے کے لئے اعراب ( لگاں ، ماتراں ) دیوناگری سے لے لیں۔
ستارویں صدی عیسوی تک پنجاب میں لاہنڈا زبان کا دور دورہ تھا ( آج یہ زبان اپنی اصلی حالت میں کہیں بھی نہیں بولی جاتی، اور پنجابی کی مغربی شاخ کو ہی لاہنڈا کےنام سے پکاریں گے )۔جس وقت مسلمان سندھ اورمُلتان پرقابض ہوئےتو فارسی اور لاہنڈا کی ملاوٹ سے اصل اردو کی بنیاد پڑی اسے لئے اردو ہندوستانی اور پنجابی مسلمانی زبان کہلائی ۔ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مُغل زمانہ کے آخری دور تک لاہنڈی اردو بولنا عام ہو گیا تھا، یہاں سے جب مسلمان دہلی کی طرف بڑھے تو اصل اردو قائم ہوئی، لیکن لاہنڈا زبان کے آثار قدیم اردو کے محاوروں میں موتیاں کی طرح پروئے جا چکے تھے، لاہنڈا کےیہ الفاظ اب اردو میں اکیلےنہیں بولے جاتے پر محاوروں میں جُوں کے توں موجود ہیں۔ انگریز کے دور میں اردو استعمال ہوتی رہی اوراس کا اثر لاہور تک لاہنڈا زبان پر ہوا ، اور یوں لاہنڈا اب لاہنڈا نہ رہی بلکہ پنجابی کی ایک علحدٰہ مشرقی شاخ بن گئی۔ لاہور پنجاب کے درمیان ہونے کی وجہ سے اس کا مرکز ہو گیا اورماجھی بولی پنجابی کی سٹینڈرڈ بولی مَانی جانے لگی۔ ( آجکل وزیرآبادی کوسٹینڈرڈ سمجھا جانے لگا ہے کیوں کے اصل میں یہ ہی " پنجابی لاہنڈا" کی مرکب ہے اور پنجابی کی دونوں شاخوں کو نمایاں کر تی ہے۔)
پہلے پہل پنجابی کو لنڈا طرز کی لکھائی میں لکھا جایا کرتا تھا اس لنڈا خط کی کئی تختیاں ہیں جن میں سے ایک مہاجنی خط عام مِثال ہے۔ یہ خط ادبی زبان میں نہیں آسکتا، کیونکہ اس میں سوائے اَیڑا، اُوَڑا، اِیڑی کے حروف علت حت الوسع استعمال نہیں کئے جاتے۔ وقت گذرنے پر گورمکھی خط کو اسی لنڈا خط سے نکال کر پنجابی کے لئے سِکھّوں نے موزوں کیا ( اسی وجہ سے اسے سکھوں کی بولی کہا گیا) ۔ اِسکی ساری لکھائی ایسی ہے کہ جیسے اُردو الفاظ کو رومن انگریزی میں لکھ دو، یعنی صَوتی طرز ہے ۔ جسطرح سُنا اُسی طرح ہی لکھ دیا۔ ایسی لکھائی میں مطلق کوئی لچک نہیں رہتی مثال کے طور پر اردو میں حرف "کیا" لکھنے میں اتنی لچک ہے کہ اسکو چاہے "کِ آ" پڑھو یا "کی یا" یا "کِ یا" یا "کی آ " یعنی موقعہ مطابق جسطرح مناسب ہو، اس ایک طرز سے کئی فائدے لے سکتے ہیں، مگر گورمکھی کی لکھائی میں بالکل شکنجہ کی طرح مُقید ہونا پڑتا ہے۔
عربی اورفارسی کے الفاظ کوگورمکھی صحیح روپ میں پیش نہیں کر سکتی ، مثلاً ت ۔ ط ۔ ق ۔ ک ۔ ذ ۔ ز۔ ظ ۔ ا ۔ ث۔ ۔ س ۔ ص وغیرہ کا فرق نہیں کر سکتی ۔ اس واسطے یہی ٹھیک ہے کہ ہندی الفاظ کو استعمال کرنے والے گورمکھی میں اورعربی فارسی کے الفاظ کواستعمال کرنے والے فارسی رسم الخط میں لکھا کریں ۔ پنجابی کا سارا ادب تقریباً فارسی رسم الخط میں ہے۔ مشرقی پنجابی کا رسم الخط تو اسقدر مفقود ہے کہ اس بولی کا کوئی ادب ہی نہیں ملتا، اور پنجابی کی مغربی شاخ یعنی لاہنڈا کا محض زبان زد دوہڑیاں پر زندہ ہے۔