Punjabi: Tone
گمک :
پاک و ہِند خاندان (زبان کے) کے 18 گروہوں میں سے ایک گرو ہ پنجابی کہلاتا ہے۔پنجابی زبان اردو کی طرح مرکب نہیں ہے، بلکہ یہ اس برصغیر کی اصلی زبان کے شجرہ کی ایک کڑی ہے جس کی ایک خاص صفت سے یہ نمایاں ہے ، اور وہ ہے گمک کی ادایئگی۔ وہ علاقے جو پنجابی زبان کے احاطہ کی حدود پر واقع ہیں اور جن پر اُنکی ملحقہ زبانوں کا اثر ہے، وہاں گمک صحیح معنوں میں ادا نہیں ہو سکتی، جس طرح مثلاً انگریزی کو ایک ہندوستانی اپنے ہی تلفظ کے لہجہ میں ادا کرے گا ( جب تک وہ خوب مہارت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے)، اِسی طرح اِن علاقوں میں گمک کی ادائیگی کا اُن کا اپنا ہی لہجہ ہوتا ہے وہاں ایک خاص قِسم کے سکتہ (hiatus)سے چڑھتی ہوئی گمک کو ادا کیا جاتا ہے، یا پھر پشاور اور ملتان کی طرف گرام گمک کو اردو کے ماڈرن مخلوط الہا کی نقل پر بولا جاتا ہے، مگر ملتان کی جانب مجہورہ مخلوط الہا کوقطعا نہیں بُلایا جاتا بلکہ اُن کا ماڈرن مخلوط الہا بھی اِتنا ڈِھیلا ہوتا ہے کہ حقیقت میں "ھ" (h) کی علحٰدہ آواز ہوتی ہے اور علحٰدہ حرکت رکھتی ہے۔
ب+ھ= بھ اور د+ھ =دھ یا اس جیسے حرف مرکب جانے جانے کی وجہ سے ابجد میں جگہ نہیں پا سکتے کیونکہ اصولاً مرکب حروف کسی ابجد میں شامل نہیں کئے جاتے ۔ ان آوازوں کے لئے جو عربی اور فارسی میں نہیں تھیں اردو میں یہ حروف اپنی مخصوص آواز کے لئے بنائے گئے تھے ، ان ہی کو پنجابی میں استعمال کیا گیا ہے۔ پنجابی املا کمیٹی کی میٹنگ جو 22 جون 1962ء کو ہوئی اس میں صوفی تبسم کہتے ہیں : -
" انج تاں سانوں ایہناں آوازاں دی املا بارے سوچنا چاہیدا ہے پر ایہناں نوں دو حرف نہیں کہنا چاہیدا ، ایہہ حرف سانوں اپنی زبان دیاں لوڑاں پوریاں کرن لئی آپ گھڑنے پئے۔ ایسے پاروں تاں میں اردو والیاں نوں کہندا آں کہ "دولہا" تے "تمہیں" دی املا انج غلط ہے ۔ ایہدی تھاں "دولھا" تے "تمھیں " ہونی چاہیدی ہے تاں جے پڑھن والے نوں پتہ لگ سکے کہ اوہنے "لھ" تے "مھ" دیاں آوازاں دا اچارن کرنا ہے" ۔
اسی کمیٹی کے فیصلے کے مطابق پنجابی زبان کی کچھ آوازیں جن کے لئے کوئی نیا حرف نہیں بنایا گیا کیونکہ یہ آوازیں وہ ہیں جنہیں صرف پنجابی ہی بول سکتا ہے۔ مثلاّ
اس جیسی مخصوص آوازیں صرف ماجھے میں ادا کی جاتی ہیں ، باقی ملتان، سرگودھا، بہاول
پور، پشاور جہاں پنجابی کی بولیاں ----- ملتانی ، شاہ پوری، ہندکو بولی جاتی
ہیں ، وہاں پر "بَھادوں اور دَبھ" کی "بھ" اور "مجھ اور جھلّا کی "جھ"
وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اس لئے یہ اصول رکھا گیا ہے کہ مرکزی پنجابی والے بھ ،
جھ ، دھ وغیرہ کی صرف ادائیگی ملتانی، ہندکو سے الگ رکھیں گے ۔
ایسا زبان کے وسیع مفاد کے پیشِ نظر کیا گیا ہے گورمکھی میں بھی ایسے ہی ہے۔ اس لئے
اصول یہ رکھا گیا کہ "بھنگ اور لبھ کی بھ" ، "جھٹ اور سانجھ کی جھ " ، " دھون
اور مدھ کی دھ" ، " ڈھولا اور وڈھ کی ڈھ" ، گھیو اور پنیگھ کی گھ" کی املا میں کوئی
فرق نہیں ہے۔ (جوشوافضل
الدین نے ایک بار "پنجابی دربار" میں تجویز پیش کی تھی کہ کہ ت + دھ کی آواز کے لئے
دھ کے اوپر دو نقطے ( ڌھ )
ڈالے جائیں جس طرح ڌھوکا، ڌھکا وغیر۔ مگر یہ
بات تسلیم نہیں کی گئی۔)
پنجابی میں مہموسہ مخلوط الہا آوازیں ہمیشہ ثقیل مخلوط الہا ہوتی ہیں، اور مجہورہ مخلوط الہا آواز ہی مبدوء حالت میں اپنی مجہورہ آواز کو مہموسہ میں بدل کر اپنی حرکت کو گرام گمک میں کر دیتی ہیں مثلاً ڈھول ۔ دیگر جگہوں پر مجہورہ آواز تو قائم رہتی مگر ٹِیپ گمک وغیرہ پیدا ہو جاتی ہے مثلاً بُڈ ّھا ۔ اس ٹِیپ گمک کی آواز سے مغالطہ کھا کر عوام ایسی غلطی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ مثلاً لفظ چَودھری کو لکھائی میں چَوہدری لکھ جاتے ہیں۔
مخلوط الہا آوازیں اردو کی طرح ادُھورے ملاپ والی آوازیں نہیں ہیں جیسا کہ اردو میں ( مجہورہ بھ۔ جھ ۔ دھ ۔ ڈھ ۔ گھ اور مہموسہ پھ ۔ تھ ۔ ٹھ ۔ چھ ۔ کھ ) اِن کو عام طور پر انگریزی کی طرح mad house اور light house میں ڈھ (نڈھال میں ) کو dh اور ٹھ ( ٹھہرنا میں ) کو th کی طرح بُلاتے ہیں ، گو ایسی حالتیں بھی ہیں کہ اِن کو بالترتیب مابعد الہا اور ثقیل مخلوط الہا بھی بُلاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو مخلوط "ھ" کی آواز ہی غائب ہو جاتی ہے مثلاً ہاتھ = ہات۔ جو لوگ اردو کی ادھورے ملاپ والی آوازوں کو مُفرد سمجھ کر لُغت وغیرہ میں علحٰدہ جگہ دیتے ہیں وہ حقیقت میں دیوناگری یا گورمکھی کی اندھا دُھندھ تقلید کرتے ہیں ، اور یُوں اردو اصواتیات سے بے بہرہ پن ظاہر کرتے ہیں۔ اِن کو دو چشمی "ھ" سے ملا کر لکھنے میں ابجد میں جگہ نہیں دے سکتے، بعینہ جیسے thin اور then میں t اور h ملانے سے مختلف آوازیں بننے سے th کو انگریزی الفابٹ میں جگہ نہیں مل سکتی۔
آدھی "ہ" کا استعمال : ہندی کے اکثر الفاظ جن میں "س" کی آواز ہوتی ہے پنجابی میں آ کر "ہ" میں تبدیل ہو جاتے ہیں جیسے "ایس" سے " ایہہ" ، "پِیسنا" سے پِیہنا" وغیرہ۔ یہ ٹھیک ہے کہ "ایس" کو "اس" لکھتے ہیں ، یوں "اس" کی بجائے پنجابی میں "اِہ" ہونا چاہیئے مگر ہم لوگ زیر زبر ڈالنے کی تکلیف کم ہی کرتے ہیں اس لئے اسے "ایہہ" لکھا جاتا ہے۔
چند الفاظ جو اکثر غلط لکھے جاتے ہیں ان کی صحیح اِملا :
ایہہ
- ایہناں - ایہنوں - ایہدے - ایہو
اوہ - اوہناں -
اوہنوں - اوہدے - اوہو
کیہ - کیہناں -
کیہنوں - کیہدے - کیہو
جیہا - جیہناں -
جیہنوں - جیہدے - جیہو
کیہڑا ۔ جیہڑا ۔ ویہڑا ۔
ویہن ۔ نہر ۔ شہر
چودھری ۔ گوانڈھی
۔ موڈھا
کیونکہ "ہ" کو پوری طرح نہیں بُلایا جاتا اس لئے اکثر "نہیں "
کی بجائے " نئیں " لکھ دیتے ہیں جو صحیح املا نہیں ہے ، صحیح املا
یوں ہے:-
نہ
۔
نہیں ۔ نہیوں