☰ open

Punjabi Language and Dialect

پنجابی زبان اور اسکی بولیاں

Punjabi

پنجابی زبان کا علاقہ زیادہ تر اس برصغیر ہند وپاک کے اس حصہ سے تعلق رکھتا ہے جو کہ آزادی سے پہلے "پنجاب " کہلاتا تھا۔ مُلتان کا علاقہ جو کہ مَلّی قوم ( جس کو سکندر نے برباد کیا اور باقیماندہ کو مطیع کیا) کی وجہ سے مُولستھان کہلاتا تھا، محمد بن قاسم کی فتح سندھ سے لے کر محمود غزنوی کے زمانہ تک البتہ بالائی سِندھ کے زیر اثر رہا، گو تمیم بن زید کے وقت 111ھ سے یہ تعلق بھی منقطع ہو گیا تھا۔البتہ موجودہ علاقہ "پنجاب" فروری 1853ء  میں ایک چِیف کمشنر ( سرجان لارنس) کے تحت پہلی دفعہ سیاسی اکائی کی طرح لایا گیا۔ گو حصار اور دہلی ڈویژنیں جو کہ پہلے آگرہ گورنمنٹ کے ما تحت تھیں،  غدر ( 1857) کے بعد انتظامیہ کی سہولت کی غرض سے پنجاب کے علاقہ میں منتقل کر دی گئیں۔ دُرّانی بادشاہت کے شاہ شجاع کی وفات کے بعد نواب بہاول خاں خود مختار ہو گیا تھا۔ چونکہ نواب انگریزوں کا حلیف تھا ، اس لئے اُس کی ریاست بہاولپور بھی پنجاب کے علاقہ کے ساتھ ملحق رہی۔

یہی علاقہ یونانی مؤرخوں کے ہاں  Pantapotamia   کہلایا، جو بعد میں فارسی اثر کے تحت پنجاب کے نام سے لکھا جانے لگا۔ گو پنجاب میں حقیقا ً چھ دریا بہتے ہیں، مگر مذہبی طبقہ چونکہ سندھ دریا سے خوفزدہ تھا اور اس برصغیر کی متبرک مغربی سرحد سمجھتا تھا ( کیونکہ لفظ "اٹک" بمعنی روک کے ہیں، اس لئے اس علاقہ کے نام میں یہ چھٹا دریا شامل نہ کیا گیا تھا۔ البتہ رگ وید ( جو کہ پنجاب کے علاقہ میں ہی تکمیل کو پہنچا) سے ٍظاہر ہوتا ہے کہ اُس وقت آریوں کی آباد کردہ جگہ کو " سپت سندھوا" کہا جاتا تھا، جس میں سات دریا سندُھو، وِتَست( جہلم) ، اَچِسنِیز (چناب) ، اِیراوَتی (راوی) ، وِیاسا (بیاس) ، ستدرو (ستلج) اور سرسُوتی (تھانیسر کی قریب بہنے والا دریا) شامل سمجھے جاتے تھے۔ اوستا میں "ہفتا ہِندُو" اسی پنجاب کے علاقہ کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ البتہ سرسُوتی اور درِشدوَتی ( گھگھر) کا درمیانی علاقہ "برہماوَرتاَ ( بمعی متبرک گویّوں کی سر زمین) کہلاتا تھا۔

دریائے اٹک سے خائف ہونے کی وجہ سے ہی اس کو صرف سِندھُو  یا  سِندھُوس ( بمعنی سمندر  یا  پانی کا ذخیرہ) کہتے تھے۔ یہ یونانی ہی تھے جنہوں نے یورپ کو اس آریہ  لفظ "سِندُس" کو بطور   Indus اور  Indoi  روشناس کرایا۔  اس دریا کی ہیبت کی کہانی تو یہاں تک مشہور ہے کہ بادشاہ اکبر نے روشنائی فرقہ کے پِیر روشان کے دونوں لڑکوں ( کمال الدین  اور جلال الدین) کو اٹک کے حالیہ ریلوے پُل کے دونوں کناروں کی دو پہاڑیوں سے گِروا دیا تھا، جہاں سے ان دونوں پہاڑیوں کا نام کمالیہ اور جلالیہ مشہور ہو گئے۔

یقیناً  آریاؤں کے آنے سے پہلے پنجابی زبان کے اس علاقہ میں کوئی نہ کوئی زبان بولی جاتی تھی جیسا کہ رگ وید سے ظاہر ہے، پنجاب میں آریوں کو راکھشسوں یعنی اشُوریوں اور پِشاچیوں سے سخت مڈھ بھیڑ رہتی تھی ۔ اشُوری تو وُہی ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دراوڑی زبان کی بولیاں بولتے تھے۔ البتہ پِشاچہ ( یعنی دردی) شاخ کی زبانوں کا سرسری خاکہ یہاں دیا جاتا ہے :۔۔

کافر گروپ
کلا
خواری
درد

قدیم پراکرت یا  پالی کے دور ( 300 ق م سے 600ء  تک ) میں پالی کا پشاچی سے میل جول نظر آتا ہے اور یُوں اس کو وِندھیا کی زبان کہتے ہیں، یہاں تک کہ اس کو  ٹکسلا کے علاقہ میں بتاتے ہیں۔ حقیقت میں پالی کو سوراسینی پراکرت کی ہی قدیم قسم بتایا جاتا ہے، مگر اپنی اصل اردھ ماگدھی پراکرت کی شکل لئے ہوئے۔ غرضیکہ پراکرتوں کے آغاز میں ہی پاکستان کے شمال مغربی علاقہِ میں پِشاچہ   زبان  بولنے کا بھی علم ہوتا ہے جو کہ شمال کے بُدھ استعمال کرتے تھے، جس کا   آج کل کی پنجابی سے گہرا تعلق ہے۔
پراکرتوں کے دوسرے  دور ( جو کہ اندازاً   1000ء تک رہا) میں سوراسینی پراکرت کے عمل دخل کا احاطہ بہت وسیع تھا، جس سے کوئی اور پراکرت لگّا نہیں کھاتی  تھی۔ یہ بہار سے سِندھ تک اور سرحد اور پنجاب سے مالوِہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ پاکستان کے شمال مغربی  علاقہِ میں شاہباز گڑھی اور مانسہرہ کے قریب مندرجہ بالا پِشاچہ شاخ سے نکل کر ایک پیشاچی پراکرت بولی جاتی تھی۔
پراکرتوں کے تیسرے  دور ( اندازا ً 1000ء سے اندازا ً دو یا تین  صدیوں تک) میں سب سے پُرانی اپبھرنشا ورچدہ پیدا ہوئی جو کہ سندھ کے علاقہ میں بولی جاتی تھی اور اس کا میدان کبھی بھی نقشہ میں دئے ہوئے پنجابی علاقہِ سے نہیں ٹکرایا، بلکہ پنجابی زبان کے اس علاقہِ میں  لاہنڈا (لہندی) اپبھرنشا بولی جاتی تھی۔ سیالکوٹ کے گرد و نواح کیں ایک اور اپبھرنشا ڈھکّی  یا  ٹاکی  بولی جاتی تھی۔ یہیں سے اس علاقہ کا نام تکادیس، طقا،  یا طاقین یا تاکیشر پڑا۔ چونکہ ڈھکّی ، پالی اور پِشاچہ زبانوں کا اثر پنجابی پر  پُوری طرح سے تحقیق نہیں کیا گیا ، اسی لئے ہمیں پوٹھوہار کے اوپر کے علاقہِ اور دوسری طرف سیالکوٹ کے قرب و جوار میں ایسے ایسے الفاظ مل جاتے ہیں، جن کا پوری طرح سروے ابھی تک نہیں ہوا۔

یہ وہ ماحول ہے،  جس کے بعد پنجابی کی موجودہ بولیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ اس بیان کردہ ماحول سے ظاہر ہے کہ نقشہ میں دئے ہوئے پنجابی زبان کے علاقہِ میں لہندی (لاہنڈا) زبان کی حالت آج کل کی تمام پنجابی بولیوں کی ماں کی سی تھی۔ پرانی پنجابی کے دور ( 10  یا 11 صدی عیسوی سے 15 صدی عیسوی تک) سے پہلے شروع شروع میں ادب کی زبان پرانی ہِندوی تھی جس میں ساہسکرتی طرز کی سنسکرت شاعری کے بند ہوتے تھے  اور گاتھ قسم کی شاعری میں رائج تھے ، جو کہ چاند  بردائی  یا گورکھ ناتھ کے بعض شلوکوں میں پائے جاتے ہیں۔ پُراتم پُشیاجی کی یہی زبان تھی، اسی کو پراتم پُشپاجی کی زبان اس لئے کہتے تھے کیونکہ سب سے پہلے   پُندیا   یا     پُشیا  یا      پُشپا  نے  یونانی  کہانی سسّی پنوں کو ہِندوی دوہڑوں میں لکھا ( جو کہ بعد میں ایک مسلمان ہِندوی شاعر مسعود نے 1123ء میں لکھی ۔ معلوم ہوتا ہے کہ سکندر کے زمانہ میں یہ کہانی یہیں سے یونان کی طرف گئی اور قاسم کے حملہ کے بعد واپس یہیں آگئی !!) پھر بعد میں شمالی حصہ کی عام زبان ( جس کا زیادہ تر تعلق اردماگدھی کے ساتھ تھا)ہندوی کا اثرادب میں رہا۔ یہ زبان گُپتا خاندان کے بعد سات آٹھ سو سال کے عرصہِ پر مشتمل ہے۔ پرانی پنجابی کے دور میں لہندی زبان زوروں شوروں پر تھی جس میں عربی ترکی اور فارسی کا اثر تسلیم شدہ تھا۔،مگر اصلی پنجابی کی اصواتیات اور الفاظ اور ہِندوی کے افعال کی حالتیں نمایاں تھیں۔ موجودہ زمانہ کی دیسی بولیوں کی غیر تصیفی  (analytic ) خصوصیات ابھی شروع نہ ہوئی تھیں، بلکہ مضارع ہی آجکل  کے بہت سے فعلوں کی بجائے استعمال ہوتا تھا۔ جزو لاحق (postpositions) استعمال میں نہ آتا تھا ۔ اسم صفت اکثر زیر بڑھا کر بنا لئے جاتے تھے۔ برجی کی اصواتیات کا  اثر کہیں نہیں ملتا تھا ۔ شروع شروع میں لاہور مسلمانوں کا دارالخلافہ رہا اور اس عرصہ میں بیشمار غیر ملکی الفاظ پنجابی کی سان پر چڑھے، یہاں تک کہ جب 1193ء میں مسلمانوں نے دہلی کو دارالخلافہ بنایا اور بعد میں ریختہ قسم کی شاعری  شروع ہوئی تو اس کا اثر پنجابی شاعروں نے بھی لیا اور اُسی کی نقل میں شعر لکھے۔ ایسی پنجابی کو ہم اردو کا پیش خیمہ کہہ سکتے ہیں، اور اسی وجہ سے اردو کو شروع شروع میں لاہوری کا نام بھی دیا گیا تھا۔بعینہ اسی طرح اردو کو ملتانی بھی کہا گیا، ورنہ پنجابی کی مُلتانی بولی کے لئے تو لفظ "مُلتانی" مقامی طور پر استعمال ہی نہیں ہوتا تھا ( جیسا کہ برائن صاحب 1881ء میں لکھتے ہیں)۔

Next  آگے

الف بے کی پوری پٹی ۔  Shahmukhi Alphabet, Punjabi Lesson - 1
پنجابی کس طرح لکھی اور پڑھی جاۓ  Punjabi Shahmukhi Script, How to read and write
مُلتانی - زبان یا بولی   Multani or Saraiki: Dialect or Language
پنجابی زبان کی مُلتانی بولی   
مُلتانی کی مخصوص آوازیں    Sounds of Multani that make it different from other Dialects of Punjabi
پنجابی کے لِسانی رابطے ، تاریخ و اِرتقا کے پس منظر میں   
پنجابی اصوتیات   Punjabi Phonetics
پنجابی قاعدہ   
پنجابی زبان اور رسم الخط Punjabi Script and Punjabi Language
پنجابی کے کچھ الفاظ کی املاء  Words used more often

لکھاری : سردار محمد خاں


کھوج کے لئے الفاظ بغیر اعراب  ( یعنی زیر زبر وغیرہ ) کے لکھیں۔


Back to Previous Page

ساجن تیرے  روسڑے موہے  آدر  کرے نہ کوئے
دُر  دُر  کرن  سہیلیاں،  میں تُر  تُر  تا کوں  توہے
شاہ حسین




ایتھے لکھے گئے کئی مضمون پنجابی وکیپیڈیا تے اردو ویب محفل جیهی ویب سائیٹ اتے کاپی کر کے آپنیا ناواں نال لائے هوئے هن ۔ بهت هی افسوس دا مقام هے۔ یاد رهووے ایهه کتاب دی شکل وچ چھپ وی چکے هے۔

بیٹھک  

Pages


Desi Calendar

For better view the web site requires the download of ; 'Roz Urdu Punjabi Nastaleeq Shahmukhi Font.


قرآن ِ کریم کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ پیدائش کے اعتبار سے ایک انسانی بچے اور دوسرے انسانی بچے میں کوئی تفریق اور تمیّز روا نہیں رکھی جا سکتی۔