☰ open

Sounds of Multani Boli, that make it different from other Dialects of Punjabi

مُلتانی کی مخصوص آوازیں

پنجابی زبان کی ملتانی بولی میں چار خاص آوازیں حروف "ب۔ج۔د۔گ" کی پائی جاتی ہیں جو کہ ان حروف کی مجہورہ انسدادی آوازوں سے قدرے مختلف ہوتی ہیں اِن کو سندھی زبان کے حروف  " ٻ ڄ ڏ ڳ" کی آوازوں کے مشابہ سمجھ لینا چاہیئے، یہی وجہ ہے کہ مغربی مستشرقین نے ملتانی کے لئے بھی اسی قسم کے حروف  ٻ  ڄ  ڋ   ڰ  وضع کئے تھے مگر وہ رواج نہ پا سکے ۔ ان آوازوں کو سمجھنے کے لئے پہلے ہمزۃ القطع کی آواز کی تشکیل کا حال سمجھنا ضروری ہے ہمزہ کا مخرج دیکھا جائے تو مقام  نطق " حلقیہ" ہے ، یعنی اس کی آواز فم حلق کی مدد سے خارج ہوتی ہے جہاں تک اس کی صفت ممیزہ کا تعلق ہے اس میں انداز عضو "انسدادی" ہوتا ہے جس کی آواز کے لحاظ سے قسم " گرفتی" ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمزہ کی آواز کو انگریزی میں بھی "حلقی گرفت" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس میں ہوتا یہ ہے کہ فم حلق کو بند کر دیا جاتا ہے ( یعنی اوتار صوت کو آپس میں ملا دیا جاتا ہے) اور پھر اس کو یک لخت کھول دیا جاتا ہے (یعنی اوتار صوت کو  علیحدہ کر دیا جاتاہے) اس کی تشکیل سے صاف ظاہرہے کہ آواز گرفتی ہوتی ہے یعنی نہ مجہورہ ہوتی ہے اور نہ مہموسہ،  یہ کوئی نئی چیز نہیں کیونکہ اگر آپ گھوڑے کو مہمیز دینے کے لئے ٹٹکاری سی منھ سے بجائیں تو بھی ایسی چٹاخی آواز نہ مجہورہ ہوتی ہے اور نہ مہموسہ کیونکہ سانس بھی برائے نام ہی اندر پٹاخہ بجانے کے لئے استعمال ہوتا ہے اس صفت گرفتی کو اگر آواز کے شروع پر ترمیمی جزو بنایا جائے تو اسے "گھٹویں" کہا جاتا ہے مثلا ً گھٹویں انسدادی حروف، یہ ایسی انسدادی آوازیں ہوتی کہ ان کے مسکن اور رہائی میں تو کوئی فرق نہیں ہوتا، مگر بندش کے وقت اوتار صوت کو بند رکھا جاتا ہے اسی لئے ان کو گھٹویں انسدادی کہا جاتا ہے ایسی آوازوں کو انگریزی میں choke stops کہتے ہیں اوریہی وہ آوازیں ہیں جو ملتانی میں پائی جاتی ہیں ۔

جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ، ترکیبی لحاظ سے تو گھٹواں ترمیمی ثانوی انداز ہرآواز کا جزو ہو سکتا ہے مگر سماعتی طور پر اس کا احساس صرف مجہورہ آوازوں میں ہی نمایاں ہوتا ہے اور وہ بھی صفت انسدادی سے ایسی آوازوں کو اور زیادہ نمایاں کرنے کیلئے تو افریقہ کی وحشی اقوام میں چٹاخی رنگ سے اوتار صوت کو حلقی گرفت میں بند کیا جاتا ہےنتیجہ یہ کہ گھٹویں آوازوں میں بندش کے وقت چٹاخی آواز کی طرح فم حلق کو یک لخت ساتھ ہی بند کر دیا جاتا ہے اور پٹھوں کی حرکت سے فم حلق کو ڈاٹ کی طرح اونچا کیا جاتا ہے تاکہ منھ اور فم حلق کی درمیانی ہوا پر دباؤ پڑے یہ حرکت کوئی آواز پیدا نہیں کرتی جبتک کہ مسکن آواز قائم رہتا ہے مگر رہائی کے وقت یہ ایک خاص انداز کی عبوری جیسی آواز پیدا کر دیتی ہے جس کو گھٹویں عبوری آواز بھی کہہ دیتے ہیں گھٹویں انسدادی آوازیں آرمینی اور  سیکنی جرمن زبانوں میں بھی پائی جاتی ہیں، ملتانی بولی میں بھی اسی طرح  ب۔ ج۔ د۔ گ کی عام انسداد آوازوں کو گھٹویں کر دینے سے یہ نئی آوازیں پیدا ہو جاتی ہیں ۔ اب  دیکھنا یہ ہے کہ  ملتانی زبان میں ایسی گھٹویں آوازیں کہاں سے آ گئیں۔ اس کا مختصر سا جواب تو یہ ہے کہ بعینہ اُسی طرح جس طرح پنجابی کی  گمک ملتانی میں غائب ہو گئی۔

 پنجابی  میں گمک (Tone)  زبان کا اہم جزو ہے جیسا کہ الفاظ  بُھلّ ۔ جھول ۔ ڈھول۔ گھول وغیرہ سے ظاہر ہے ایک ہی لفظ میں گمک کے ہونے یا نہ ہونے سے معانی تک میں فرق پڑ جاتا ہے، مثلا ً  لفظ ڈول کو گمک سے بلاؤٴ گے تو اس کے معنی "ڈھول" کے ہونگے اور بغیر گمک کے اس کے معنی "ڈول" کے ہونگے ۔ ملتانی میں گمک نہیں بلاتے اور اس کی بجائے "ڈھ" کو ماڈرن مخلوط الہا کی طرح بلایا جاتا ہے، جس طرح انگریز لوگ جہلم اور دہلی وغیرہ الفاظ میں جھ اور لھ اکٹھا لکھ کر بلاتے ہیں کیونکہ اگر ملتانی میں ایسا بھی نہ کریں تو پنجابی کے گمک اور بغیر گمک والے ایک جیسے الفاظ میں فرق کرنا نا ممکن ہو جائے انہوں نے گمک کا ایک ردبدل ڈھونڈ لیا ہے یہ اس لئے کہ ایک قدرتی خاصہ چلا آرہا ہے کہ جن زبانوں کے تلفظ میں ہمزۃ القطع کا اثر ہے وہاں گمک عموماً غائب ہوتی ہے اور جن کے ہاں گمک ہوتی ہے  وہاں ہمزۃ القطع کا اثر غائب ہوتا ہے مثلا ً  پنجابی میں لے دے کر اگر ہمزہ کا کوئی استعمال ہو گا تو وہ لرزشی ہمزہ ہو گا جیسا کہ الفاظ شئے ۔ قئے۔ مئے وغیرہ میں رائج ہے ۔ اس آواز کو لرزشی سکتہ کہتے ہیں اور ہمزہ کی اصل آواز سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، گمک کا پنجابی میں اہم جزو ہونے کے برعکس گھٹویں آوازیں پنجابی میں نہ کسی صوتیاتی اصول میں داخل ہیں اور نہ ان سے معنوی تبدیلی  واقع ہونے کا خدشہ ہے جیسا کہ انگریزی میں خیشوی آواز کا کوئی دخل نہیں ۔  آپ انگریزی کا سارا فقرہ بھی گنگنا کر بول جائیں تو معانی میں کوئی فرق نہیں پڑیگا مگر پنجابی میں آپ مثلاً " گا" کو ذرا ناک سے بُلائیں تو اُس کے معنی "گائے" ہو جائیں گے غرض یہ کہ ملتانی میں ب۔ ج۔ د۔ گ  حروف  کو الفاظ میں گھٹویں بھی بُلائیں تو کسی قسم کا فرق نہیں پڑتا، یہی وجہ ہے کہ مغربی مستشرقین کے تراشیدہ  گھٹویں حروف ٻ  ڄ  ڏ  ڳ  ملتانی میں رواج نہ پاسکے، یہ کہنا کہ ان مخصوص حرفوں کو لکھائی میں نہ استعمال کرنے سے ملتانی تلفظ واضح دکھایا نہیں جاسکتا ایک سطحی سا اعتراض ہے، کیونکہ لکھائی کے اصولوں میں بعض چیزیں خود بخود ہی ظاہر ہو جایا کرتی ہیں ، مثلا ً  انگریزی میں بغیر نبرہ کے لفظ  The کو اعرابی آواز سے پہلے "دی" اور  صامت  سے پہلے "دا" بلایا جاتا ہے، مگر لکھائی میں ان دونوں طرح کے تلفظ کا ایک ہی قسم کا املا  ہے۔ عربی الفاط میں "ال" کی لکھائ میں تو کوئی فرق نہیں ہوتا مگر شمسی اور قمری حروف کی رعایت سے ایک جگہ تو لام کا ادغام ہو جاتا ہے اور دوسری جگہ باقاعدہ اظہار ہوتا ہے آپ اُردو میں تعلیل کو لے لیجئے جس کو عرف عام میں "امالہ" کہا جاتا ہے اس حالت میں بعض الفاظ تو صریحا ً  الف کی بجائے یاء سے لکھے جاتے ہیں ، مثلا ً گھوڑا اور گھوڑے وغیرہ، مگر بہت سے الفاظ بغیر کسی تبدیلی کے لکھے جاتے ہیں اور پڑھے باقاعدہ "امالہ" سے جاتے ہیں وہ لوگ جو ہر ایسے موقعہ پر حرف  یاء کو داخل کرنا چاہتے ہیں حقیقت میں لکھائی پر خواہ مخواہ کا بار ڈالتے ہیں حالانکہ "امالہ" کوئی گرامر کا باقاعدہ اصول نہیں جو لکھائی میں دکھایا جانا ضروری ہو  بلکہ قطعا ً اصواتی اصول کے تابع ہے جو کہ ازخود زبان بولنے والے بولتے رہتے ہیں، ایک غیر زبان کا  متدی اگر ایسے معاملوں میں ٹھوکر کھاتا ہے تو اس کی سہولت کے لئے لکھائی کا ستیاناس نہیں کیا جاسکتا ورنہ اس طرح تو ہزاروں جگہ مماثلت ادغام وغیرہ میں ایسی  تبدیلیاں کرنی ہوں گی جو کہ آج تک کسی زبان کی املا میں نہ ہو سکیں۔

 یہ مانا کہ مندرجہ بالا مختلف زبانوں میں جو مثالیں دی گئی ہیں ، ان کے لئے ساتھ ہی اصواتی اصول  پائے جاتے ہیں ۔ اس کے مقابل ملتانی میں گھٹویں آوازوں کے لئے آپ کو کسی کتاب میں اصول نہیں ملیں گے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس طرح گھٹویں آوازوں کو اصواتی نہیں نلکہ صوتیاتی تبدیلی سمجھ لیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ واضعین نے ایسے اصواتی اصول اخذ کرنے کی طرف توجہ ہی نہیں دی لہذا یہاں پر ملتانی کے چند الفاظ کی فہرست دی جاتی ہے جن میں شروع کے حروف گھٹویں مستعمل ہیں ( اور کچھ الفاظ میں ایسے حروف درمیانی اور آخری حالتوں میں بھی ملیں گے) تاکہ قارئین ان سے متعلق ایسے اصواتی اصول جن کے موٹے موٹے خدوخال بیان کئے جا سکتے ہیں بذاتِ خود مشاہدہ کرسکیں ان اصولوں کا خاکہ دینے سے پہلےیہ بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ متذکرہ بالا چار مخصوص آوازوں کے علاوہ حرف "ڈ" کی گھٹویں آواز بھی ملتانی میں ملتی ہے جس کے لئے  مغربی مستشرقین نے کوئی نیا حرف تجویز نہیں کیا مثلا ً الفاظ ڈیڈھی (ڈیوڑھی)، ڈنڈل (ڈنٹھل)، ڈاہرا، ڈرنا، ڈال ، ڈار، ڈاڈھا، ڈاچی، ڈاٹھا، ڈاٹ ، ڈٹن، ڈبّا، ڈانگ، ڈائن، ڈِٹھا، ڈ ُونگھا،   ڈوکا، ڈیڈھا، ڈولا، ڈکھنا وغیرہ میں شروع کی یہی گھٹویں آواز ہے ۔ اس آواز کو دال کی گھٹویں آواز سے شاید اس لئے علیحدہ نہیں کیا گیا کیونکہ دونوں آوازوں میں سماعتی لحاظ سے بہت کم فرق ہے ۔ گو  ترکیبی لحاظ سے مختلف ہیں اصولوں کا سرسری خاکہ یوں ہے :---
یہ مخصوص آوازیں شاذ ہی ماڈرن مخلوطالہا رنگ میں ادا ہوتی ہیں ، لے دے کر چند ایک الفاظ ( مثلاً ڈھارا۔ ڈھٍّا۔ بھاں وغیرہ کے شروع میں) جہاں یہ پائی جاتی ہیں ان کو بغیر گھٹویں کے بھی عام گفتگو میں بولا جاتا ہے :
1- ان کا جوڑ میل زیادہ تر شمسی حروف کے ساتھ ہے ۔
2- قمری حروف ( خصوصا ً وہ جو تالو اور حلق سے متعلق ہوں) سے ان کا ربط نہ ہونے کے برابر ہے۔
3- زیادہ تر وردھی(ممدودہ) اعرابی حروف سے یہ میل کھاتی  ہیں ، کَنا(مقصورہ) سے نہیں۔
4- مشدد حروف سے بھی ان کا میل بہت کم ہے۔ سندھی کے تشدید والے گھٹویں الفاظ مثلا  ً   (اَڄ ۔ لڳّن ۔ ڋبّا ) ملتانی میں  آ کر بغیر گھٹویں تشدید کے ساتھ بولے جاتے ہیں مثلا ً    اَج ّ ۔ لگّن ۔ ڈبّا  وغیرہ
5- مبدوء حالت میں یا  لفظ کے آخر پر یہ آوازیں  آتی ہیں ، مثلا ً  ڋاڋا ۔ ڋانڋ   وغیرہ ۔
6- ان کا ماڈرن مخلوط الہا بھی اتنا loose  ہوتا ہے کہ حقیقت میں  "ھ" علحٰدہ آواز دیتا ہے اور  علحٰدہ  اِعراب رکھتا ہے، مثلا ً  ٻُہَاری ( سندھی بمعنی جھاڑُو)۔
الفاظ کی مختصر فہرست مندرجہ ذیل ہے :----

جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے ان مخصوص آوازوں کو گٹھویں نہ بھی بلایا جائے تو معانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں تک کہ بعض الفاظ تو دونوں طرح کی آوازوں میں ایک ہی معانی میں عام بول چال میں ملتے ہیں مثلا ً الفاظ  ڈا ۔ ڈائی ۔ ڈوڈر۔ دَہواں  وغیرہ میں شروع کے حروف دونوں طرح بلائے جاتے ہیں ۔ ایک آدھ مثالیں ضرور  ایسی پائی جاتی ہیں جن میں ایک لفظ کے ایک سے زیادہ معانی ہوں تو عام آواز میں ایک معنی مختص کر دیئے گئے ہیں اور گھٹویں آواز سے دوسرے معنی مثلاً  شروع کی عام آواز میں لفظ "ڈولا" کے معنی ایک مچھلی کے ہیں اور گھٹویں آواز سے اس کی معنی بازو کی مچھلی کا پٹّھہ ۔ اسی طرح لفظ "ڈورا" شروع کی عام آواز سے رسی کے معنوں میں ہے مگر گھٹویں آواز سے کھیس کی گوٹ کو کہتے ہیں ۔ مگر مثتثنٰے مثالیں کوئی وزن نہیں رکھتیں۔ اس کے برعکس سندھی زبان میں گھٹویں حروف زبان کا جزو ہیں۔ کئی الفاظ آپکو سندھی میں ایسے ملیں گے جن میں اگر گھٹویں کی بجائے دوسرا سیدھا تلفظ کیا جائے تو معنی تک میں تبدیلی ہو جائے گی، مثلاً  لفظ "دادی" کو اگر گھٹویں حروف سے بلایا جائے تو معنی "دادی اماں" کے ہوں گے اور اگر بغیر گھٹویں حروف سے تلفظ کیا جائے  تو معنی "بہن" کے ہوں گے ۔ اسی طرح لفظ عام "جاری" کو اگر گھٹویں حروف سے بلائیں تو معنی "جال" کے ہو جائیں گے۔ "بابو" باپ کو کہتے ہیں مگر گھٹویں حروف کردینے سے معنی "چاچا" کے ہو جائیں گے ۔ یہی سندھی کے خاص حروف ہیں جن کا اثر ملتانی پر ابھی تک چل رہا ہے اور یہ آوازیں پنجابی میں کوئی قیمت نہ رکھنے کے باوجود بھی ملتانی میں تبرکاً چلی آرہی ہیں اور  اس طرح گمک کو میدان سے غائب کئے ہوئے ہیں سندھی میں آوازیں کہاں سے آئیں ---؟      ہو سکتا ہے کہ یہ عرب فاتحین کی زبان کے ہمزۃ القطع کا اثر ہو ۔ یا    وادئ سندھ کے قدیم باشندے جو کہ ہڑپہ اور موہنجودارو میں آباد تھے اور جن کو خوش فہمی سے دراوڑ کہا جاتا ہے انہی کی زبان کا اثر ہو حالانکہ جنوبی ہند کی دراوڑی زبانوں میں ایسی کوئی آواز کا سراغ نہیں ملتا ، بہرحال یہ آوازیں حقیقت میں ملتانی سے جو بھی تعلق رکھتی ہوں وہ واضح ہے کہ سوائے ایک لہجہ کے اور کچھ نہیں ۔ جس طرح اردو زبان والا انگریزی کو اپنے لہجے میں ادا کر کے انگریزی کا ایک نیا لہجہ بنا لیتا ہے اسی طرح ملتانیوں نے پنجابی کا ایک نیا لہجہ بنایا ہو یا ہے۔

الف بے کی پوری پٹی ۔  Shahmukhi Alphabet, Punjabi Lesson - 1
پنجابی کس طرح لکھی اور پڑھی جاۓ  Punjabi Shahmukhi Script, How to read and write
مُلتانی - زبان یا بولی   Multani or Saraiki: Dialect or Language
پنجابی زبان کی مُلتانی بولی
پنجابی کے لِسانی رابطے ، تاریخ و اِرتقا کے پس منظر میں
پنجابی اصوتیات
پنجابی قاعدہ
پنجابی زبان اور رسم الخط Punjabi Script and Punjabi Language
پنجابی کے کچھ الفاظ کی املاء  Words used more often
پنجابی زبان کی بولیاں   Punjabi Language and Dialect



کھوج کے لئے الفاظ بغیر اعراب  ( یعنی زیر زبر وغیرہ ) کے لکھیں۔


Back to Previous Page

مائے نی !   میں کیہنوں آکھاں، دَرد  وَچھوڑے دا حال
دُھوآں دُھکھے میرے مُرشد والا، جاں پھولاں تاں لال
سُولاں  مار  دِیوانی  کیتی،  برہوں  پیا  ساڈے خیال
دُکھاں دی روٹی, سُولاں دا  سالن  آہیں دا بالَن بال
جنگل  بیلے  پِھرے  ڈُھوڈیندی،  اَجے  نہ  پایو  لال
کہے حُسین فقیر نمانا،   شوہ  ملے  تاں تھیواں  نہال
شاہ حسین




ایتھے لکھے گئے کئی مضمون پنجابی وکیپیڈیا تے اردو ویب محفل جیهی ویب سائیٹ اتے کاپی کر کے آپنیا ناواں نال لائے هوئے هن ۔ بهت هی افسوس دا مقام هے۔ یاد رهووے ایهه کتاب دی شکل وچ چھپ وی چکے هے۔

بیٹھک  

Pages


Desi Calendar

For better view the web site requires the download of ; 'Roz Urdu Punjabi Nastaleeq Shahmukhi Font.


ہر کسی کو اپنے کئے کی سزا خود بھگتنی پڑے گی، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔