☰ open

Punjabi Language and National Integration

پنجابی کے لِسانی رابطے ، تاریخ و اِرتقا کے پس منظر میں

( یہ لیکچر  "نیشنل بُک کونسل آف پاکستان کی جولائی 1984 ء میں ہونے والی ورکشاپ کے لئے سردار محمد خاں نے لکھا تھا۔)

Various_aspectBack

پنجابی زبان کے علاقہِ کےبیرونی دائرہ کی بولیاں (peripheral languages)کی مزید تفصیل ملاحظہ ہو ۔ 1879ء کی shirt کی لکھی ہوئی The pocket Sindhi English Dictionary میں لفظ "سِرو"  کے معنی   "The province of Sind north of Sehwan" درج ہیں ۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے اپنی سندھی اردو لغت میں بھی اس کے معنی " سندھ کے شمالی خطّہِ سِرو کی زبان" دئے ہیں ۔ سر جارج گریرسن نے اپنے نقشہ میں سندھی کی بولی سرائیکی کو اسی خطہِ میں دکھایا ہے، جس کا بیرونِ سِندھ اثر بھی ہے جیسا کہ نقطہ دار لکیر واضح کر رہی ہے۔

سردار محمد خاں کے ہاتھ سے بنایا ہیا۔

اس سرائکی کے بولنے والے بلوچستان میں سِبّی کے علاقہِ تک پائے جاتے ہیں۔ مگر مظفر گڑھ کی ہندکی ( نمبر 428) کی جغدالی بولی جو بلوچستان کے ملحقہ علاقہِ میں بولی جاتی ہے، اُس فرعی بولی کو جٹکی لہندا کہا ہے۔ خصوصا “ فورٹ مَنرو اور کوہلُو کے درمیانی علاقہ کھجُوری، بارخان اور وٹوکری وغیرہ میں مظفر گڑھ کی ہِند کی  کی فرعی بولی کھیترانی اور جعفری ( 430) بولی جاتی ہے ۔ البتہ سرائِکی بولنے والے صوبہ پنجاب کے جس علاقہِ (رحیم یار خان سے ولہار تک) میں پائے جاتے ہیں ، وہاں مظفر گڑھ کی ہِندکی فرعی بولی اُبھیچی یا سرائِکی ہِندکی (نمبر 429) ہے، جِسے ریاستی یعنی بہاولپوری ( نمبر 426) والے "لموچی" کہتے ہیں۔

پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد البتہ ناموں میں تبدیلی ہو گئی ہے سِندھی سرائِکی بولی کو "سِرو" ماخذ سے ہی سریلی کہنا شروع کردیا ہے ( گو ڈاکٹر بلوچ کی لُغت میں ابھی یہ لفظ نہیں آیا)، اور اُبھیچی کو سرائِکی کا نام دے دیا گیا ہے، بلکہ ڈاکٹر بلوچ کی لُغت میں تو اِس کا دائرہ بڑھا کر بہاولپور اور ڈیرہ غازی خاں والے شمالی خطہِ کی زبان لکھا ہے ( گویا صوبہ سندھ کا " شمالی خطہ" اب صوبہ سندھ کے باہر کا  "شمالی خطہ" بن گیا)

ہِندکو ( پشاوری  یا  کوہاٹی) کا زیادہ تر فرق صرف عام تلفظ کا ہے، بلکہ لِکھنے میں تلفظ کرنا اور زیادہ مشکل ہو گیا ہے، مثلاً :-

عام تلفظ :-  بَھیڑا ۔ گِھیو ۔ پڑھایا ۔ گھر ۔ جُھوٹھا ۔ احمق ۔  شہر ۔ بہت ۔ جِہنُوں

ہندکو تلفظ :-  پَیہڑا ۔ کہیو ۔ پڑآیا ۔ کہار ۔ چہوٹھا ۔ ایمخ ۔ شیر ۔ بوت ۔ جنوں

اِس کے علاوہ پشتو کے چند الفاظ اس میں در آئے ہیں ، مثلا ً  بندریا کے لئے بُوجو۔ یا پشتو کا لہجہ تلفظ پر حاوی ہو گیا ہے ، مثلا ً لفظ  "اَور" کی مرکب حرکت نہ پڑھ سکنے کی بجائے "اور" یا پھر پشتو کا ذخیرۂ الفاظ اثر کر گیا ہے مثلا ً چچا اور تایا کا فرق بتانے کے لئے ہندکو میں کوئی علحٰدہ لفظ نہیں ہے۔

مشرقی پنجابی (گریرسن کے مطابق) :-  گو پنجابی کا اصل تو لہندا زبان ہے، مگر مشرقی پنجابی نے اردو زبان کا اِتنا زیادہ اثر لیا ہے کہ پنجابی کے اپنے مخصوص لفظ ہوتے ہوئے بھی ہم اُن کو بولنے میں فوراً ذِہن میں نہیں لا سکتے، لہٰذا بغرض آسانی اردو  ردِّ بدل سے کام چلا لیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ پنجابی زبان کا اپنا  shibboleth بھی ہے، جس کو تلفظ میں گمک یعنی  Tone کہتے ہیں ، مثلا ً الفاظ ڈھول ، بُھلّ، گھاہ (بمعنی گھاس) ، وغیرہ میں گمک جو کہ تمام پنجابی علاقہ میں کسی نہ کسی رنگ میں پائی جاتی ہے، مگر اردو کا رنگ بالکل مختلف ہے۔

انگریزی میں Restructuralization کے متضاد  relexification اصطلاح ہے، یعنی ایک زبان کے لفظ (یا مجموعۂ الفاظ) کی بجائے دوسری زبان کے لفظ (یا مجموعۂ الفاظ) کو رکھ دینا مگر قواعدی سلسلہ جُملہ ماحول کا وہی قائم رہے، مثلاً  شرف الدین اصلاحی کی کتاب "اردو سندھی کے لِسانی روالبط " کے صفحہ 430 پر ذکر ہے کہ نحوی طور پر اجزائے کلام کی ترتیب میں سندھی اور اردو اس حد تک ہم آہنگ ہیں کہ نثر تو نثر بسا اوقات اکثر نظم کے اشعار کا ترجمہ کریں تو بھی ترتیب بدلنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ اس کے مقابلہ پر پنجابی اس سے بھی بڑھ کر مثال پیش کرتی ہے ، کہ اِن کو پڑھ کر پنجابی اور اردو دونوں اپنے ادب کا کارنامہ سمجھتے ہیں ۔ اشعار  ملاحظہ ہوں:-

اِک اِک پَل سمجھایا                پر دِل  باز    نہ   آیا
آخر شکوہ   کر     کے                 کوئی   کیوں   پچھتایا
جو   بِیتی  سو   بِیتی                جو   پایا      سو   پایا
تیری  خواہش    توبہ                ناحق    جی      ترسایا
کر کے جتن سب ہارے                تیرا    اَنت   نہ  پایا
غم    میرا      سرمایہ                غم     میرا  ماں جایا
طارق ناز کرے  دِل
ہو  کے   مال    پرایا

یہاں یہ بات ہر وقت مدنظر رکھنی چاہیئے کہ لسانیات میں جب کبھی کوئی لسانیاتی جائزہ لیا جاتا ہے تو چھوٹی سے چھوٹی مقامی بولی کو بھی "زبان" کا درجہ رکھ کر مطالعہ کیا جاتا ہے، حالانکہ بات واضح ہے کہ زبان اور اس کی بولی میں فرق صرف اِتنا ہوتا ہے کہ ایکدوسرے کو سمجھنے کے لئے معمولی سے فرق کو جان لینے اور مقامی الفاظ کے معانی جان لینے کے بعد فوراً مفہوم ایکدوسرے پر واضح ہو جاتا ہے۔

بعض اصطلاحات ایسی ہوتی ہیں جو کہ قواعد میں کچھ اور رنگ میں استعمال ہوتی ہیں ، مگر لسانیات میں اپنا واضح مطلب کچھ اور رکھتی ہیں ، مثلاً کسی لفظ کا ہجاء کرتےوقت جس حرف پر حرکاتی نشانی ( زبر، زیر، پیش) ہو، اُس کو متحرف کہتے ہیں، ورنہ اُسے ساکن قرار دیا جاتا ہے، اور ایک ساکن کے بعد دُوسرا ساکن حرف آ جائے تو دوسرے کو موقوف کہتے ہیں مثلا ً لفظ "جان" میں جِیم متحرک، الف ساکن اور نُون موقوف ہے، مگر لسانیات میں اصلیت واضح کی گئی ہے کہ الف حرکاتی حرف ہونے کی عجہ سے ساکن ہو نہیں سکتا، لہٰذا اس لفظ "جان" میں جِیم کے بعد حرکت ہے اور نُون ساکن ہے۔

اسی طرح عربی  کی ابجد میں چونکہ حرکاتی حرف کوئی نہیں ہوتا بلکہ تمام حروفِ صحیح ہوتے ہیں، اِس لئے حروف  ا۔و۔ی کی کھڑی زبر، زیر ، پیش کی آوازیں نِکالی جانے کی وجہ سے ان کو قواعد میں حروف عِلّت کہا جاتا ہے، جس کا عام ترجمہ  Vowel کیا جاتا ہے۔ مگر اردو ، پنجابی وغیرہ میں  Vowel کو حرفِ علت کہنا درست نہیں ہو گا، کیونکہ اردو اور پنجابی میں مثلاً صرف "کُو" کی آواز ہی نہیں ہوتی بلکہ "کو" (مجہول آواز) اور کَو ( مرکب آواز) بھی ہوتی ہیں۔

سنسکرت میں  Bloomfieled کے ابتدائی تجزیہ کی اصطلاحوں کے مطابق :-

سُوَر = حرکاتی حروف  (vowel letters) + مُصمتے (syllabic Contoid)
اور
    وَینجن = حروفِ صحیح  (Consonant letters) + مِثل مصوت (non - syllabic vocoid) ۔

سب سے نمایاں مثال قواعدی اصطلاح "مصدر" کی ہے ، جس کے آخر پر مصدری علامت ہوتی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر لفظ جو اس مصدری علامت پر ختم ہو، وہ مصدر ہی ہوتا ہے، بلکہ انگریزی میں تو مصدر کو بغیر مصدری علامت "it" سے بھی استعمال کرتے ہی ، مثلاً  You shall goیا  I will go میں "to go" کی جگہ صرف  "go"  بولتے ہیں (ملاحظہ ہو :- A practical English Grammar by A.J. Thomson & A.V. Martinet-Rule 240 2nd Edition)

عربی میں بُنیادی فِعل کی اِکائی  کَتَبَ  کو لے لِیجئے ، اس سے مصدر  کَتَبٌ  بنا، مگر دیگر الفاظ کتبٌ  سے نہیں بنتے، بلکہ تِین بُنیادی حروف  کاف، تا  اور با سے بنتے ہیں۔

فارسی میں بھی فِعل کی اِکائی مصدر کی نشانی ( "دن" یا  "تن" کا ) نُون اُڑا کر ہی بنتی ہے، گو مستثنےٰ  حالتوں، مثلاً مضارع میں، بُنیادی فِعل کی اِکائی کے حروف ( سوائے پہلے حرف کے) تبدیل بھی ہو جاتے ہیں۔ اِسی طرح اردو اور پنجابی میں مصدر کی نشانی سے نہیں بلکہ صیغہ امر  ہی فِعل کی اکائی ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی اسم سے فعل بنانا ہو تو پہلے مصدر نہیں بلکہ صیغہ امر بنے گا، مثلاً   "نظر" ہی ہو گا اور پھر مصدر کی نشانی "نا" لگا کر نظرنا" بنے گا، مختصراً یہ کہنا مقصود ہے کہ مصدر گو خود صیغہ امر سے بنا اور یوں مصدر سے دیگر کلمات نہیں نکلتے، بلکہ یُوں کِہیئے کہ مصدر پُورے کا پُورا کسی بھی منصرف فعل (finite verb) کی بناوٹ میں نہیں آتا، مگر پھر بھی یہ سب کچھ قوائد میں آخر کیوں بظاہر متضاد معنوں میں مصدر کی اصطلاح گھڑی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ قوائد نویسوں کو ایک پِدری حیثیت کے مثالی تصور کا لفظ درکار تھا، جو کام کے واقعہ ہونے کے معنوں میں ایک عمومی تخیل پیش کرنے والا نہیں ( مثلاً صیغہ امر) بلکہ فعل کے عمل کو کسی حد تک مجسم کر کے پیش کرنے والوں کے معنوں میں سب پر مُورثِ اعلیٰ کی طرح حاوی ہو، اور وہ یہی مصدری نشانی والا لفظ چُنا گیا۔ یہ چُناؤ بھی اس کی فعلی صفت کو بطور غیر منصرف فعل (infinite verb) کے  استعمال سے عمل میں لایا گیا ہے۔ اس  لئے مصدر کو لُغت میں بطور لازم یا متعدی وغیرہ بھی دکھایا جاتا ہے، حالانکہ یہ مصدر کی صفت نہیں ہے کہ وہ لازم ہے یا متعدی۔ بلکہ سندھی زبان کی قوائد میں تو بنیادی فعل سے ہی دیگر افعال وغیرہ بنانا سکھایا جاتا ہے ، نہ کہ اردو کی طرح یہ کہ پہلے مصدر کی علامت اُڑائی جائے اور پھر دیگر افعال بنائے جائیں۔

محمد آصف خاں نے مصدر کا جچواں تُلواں پنجابی مترادف لفظ " کڽ" استعمال کر کے مصدر نامہ کی طرز پر جو " کڽ لیکھا" کتاب پنجابی ادبی بورڈ لاہور والوں نے چھاپی ہے، اُس میں بنیادی طور پر صیغہ امر کو  ہی اپنایا ہے، مگر چونکہ بنیادی فعل میں آخر پر یگانگت نہیں ہے، اس لئے " کڽ لیکھا" کے لُغتی اندراج میں یکسانیت پیدا کرنے کے لئے اور مصدر کے بظاہر متضاد معنوں کی اُلجھن سے بھی بچنے کےلئے اُن کے آخر پرنُون زائد لگا دیا ہے، جو کہ پنجابی میں فِعل کی صرفی گردان کا صیغہ جمع ہے۔ اِس شکل میں لُغتی اندراج دینے سے لازماً اُن کے معنی بھی اسی جمع کی فِعلی حالت میں دینے پڑے ہیں۔ پنجابی اردو روابط کو دیکھا جائے تو " پڑھیں۔ پڑِھڽ" اور پڑھائیں۔ پڑھاوِڽ" کی اصواتی مماثلت میں فرق صرف نُون غُنّہ (اردو) اور نُون سالم (پنجابی) کا ہے۔

اردو کی "جامع اللغات" (چار جِلدوں میں ) میں بھی حتی الوسع فِعل کے صیغہ امر کو ہی اکائی مان کر معنی دئے گئے ہیں۔ الفاظ کے معانی ہمیشہ صرف ونحو سے متعین ہوتے ہیں، مگر نحوی ترکیبوں سے معانی کی تفصیل ہماری دیسی لُغات میں بہت کم مِلتی ہے۔

مُستشرقین نے  یہ مقولہ رائج کیا تھا کہ رسم الخط مذہب کے جھنڈے تلے پھیلتا ہے، اور پھر اس سے نتیجہ یہ نکالا تھا کہ  یُوں عربی خط ہمارے برصغیر  کی زبانوں پر غیر موزوں ہونے کے باوجود مسلط کر دیا گیا۔ یہ عربی خط کی نشو ونما روکنے کے لئے ایک شہرت دینی والی حرکت تھی، جس نے ابھی تک ہمارے ذہنوں کو گرفت میں لیا ہوا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شمالی کتبوں کی لکھائی سندھی زبان کے لئے رائج تھی جس کا ثبوت جاپان کی چَھٹی عیسوی کی ایک کتاب سے مِلتا ہے، مگر جو عام رواج عربی  نسخ خط کا سندھی زبان پر تھا وہ انگریزوں نے بھی تسلیم کر کے سندھی کے لئے عربی خط کا ہی چُناؤ کیا ( مگر  "د" اور  "ڈ" کے گُھٹویں تلفظ میں فرق نہیں کیا ۔ شاید اس کئے کہ گو ان کا مقام نطق علحٰدہ، مگر سماعی طور پر زیادہ فرق نہیں )۔ بہر حال ہندی رسم الخط کے پرچارک لاشعوری طور پر ہمیں متاثر کرتے رہے ہیں۔ ترقیٔ  اردو بورڈ کراچی والوں کو بے انتہا سمجھانے پر بھی اُنہوں نے اپنی لُغت کے لئے اردو ابجد کی ترتیب میں الف کی تختی کے بعد  "آ" کا حرف علحٰدہ داخل کر دیا ہے۔ مزید برآں مخلوط الہا حروف چونکہ ہندی خط میں علحٰدہ مفرد شکلیں رکھتے ہیں ، اس لئے لُغت میں متعلقہ پٹاخی حروف کے بعد ابجد میں اُن کی مخلوط الہا شکلیں بھی داخل کردی ہیں ، حالانکہ ہمارے ہاں مجہورہ مخلوط الہا شکل  مفرد حرف نہیں بلکہ دو حروف کا مرکب ہوتا ہے  ( ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا کہنا ہے کہ سندھی ابجد میں " جھ" اور  "گھ" کے لئے علحٰدہ حروف اس لئے نہیں ہیں کیونکہ ان میں مکمل ادغام نہیں ہے )۔اس لغلط حرکت کے لئے سہارا صَوتیہ (Phoneme) کے غلط تصور کا لیا  جاتا ہے۔ لسانیات نے تو اپنے تجزیہ کے لئے صَوتیہ کی نشاندہی کی۔ اس کی مدد سے ابجد نہ رکھنے والی زبان کے لئے موزوں تریں ابجد بنانا آسان ہو گیا۔ مگر ہم نے اپنی ابجد کو بگاڑنے کے لئے صَوتیہ کا  زندہ ابجدوں کو ٹھیک کرنے کا آلہ کار سمجھ لیا، بلکہ یہاں تک کہ چونکہ ہم عربی حروف کا صرف صوری احترام کرتے ہیں اور اصواتی احترام سے معزور ہیں ، اس لئے ایسے حروف کو زائد سمجھ کر ابجد سے نکال دینا چاہئے۔ انگریزی کے اہل زبان کو تو اتنا ہوش نہ آیا کہ Thin  اور Then  میں th  دو مختلف صَوتیے (ث اور ذ) ہونے کی وجہ سے ان کے لئے انگریزی ابجد میں th  کا مرکب حرف رکھ لیں، مگر یہاں تقلید کے پرستاروں نے بغیر سوچے سمجھے اپنی ابجد کو مالامال کر دیا۔ صَوتیوں کی نیرنگی ملاحظہ ہو کہ اردو کا  فِقرہ " فیاض صاحب کیا آپ نے مرزا غالب کی فلم دیکھی ہے، بڑی مزیدار ہے " کو   "پھیاج صاحب کیا آپ نے مِرجا گالب کی پِھلم دیکھی ہے، بڑی مجے دار ہے" کی طرح بولا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جوڑ والی لکھائی ( مثلاً اردو کی تقطیعی لکھائی) دائیں سے بائیں طرف لکھے جانے کے باعث، باوجود  زود نویس ہونے کے محدود اور ترقی سے محروم رہتی ہے، مگر حرفی خط ( مثلاً  پورپی زبانوں کا ) جو کہ بائیں سے دائیں طرف لکھتے ہیں ہمیشہ رواں ہوتے ہیں ، لہٰذا  اردو کی ترقی کی راہ میں اس رُکاوٹ کو دُور کرنا چاہئیے ۔ اردو کے مخلوط الہا حروف کے سلسلہ میں یہ بات قابل غور ہے کہ آج  تک یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ مخلوط الہا آوازیں کتنی قِسموں کی ہیں، اور نہ کوئی اصول وضع کئے گئے ہیں کہ ان قسموں کے لئے دو چشمی  ہاء  یا   آویزہ  دار  ہاء کس طرح استعمال کی جائے۔

کسی زبان کے خط ی قسم کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، کیونکہ رسم و رواج کے دلددہ انسان اس طرح جکڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ وہ مثلاً  ہِیر و غلیفی خط کی بھاری بھر کم لکھائی میں ہزاروں سال لِکھتے رہے، ورنہ کم از کم 5 ہزار سال پہلے ابجد قسم کی لکھائی اپنا  چُکے ہوتے۔ یُوں سمجھو کہ وہ اتنی جرأت بروئے کار نہ لا سکے کہ اس پاڑ کے بانس اور تختے اُتار پَھینکتے جس کی مدد سے وہ شاندار عمارت کھڑی کرسکے۔ یہی جمُود ایک اور شکل میں ملاحظہ ہو۔ مصری ہِیروغلیفی میں اندازا ً 600 سے زیادہ نشانیاں تھیں، جس میں ایک ہی آواز کی کئی کئی شکلیں رائج تھیں ، اور لکھنے کے تمام اصول مِل جُل کر استعمال ہوتے تھی اور مدتوں ہوتے رہے۔ یُوں سمجھو کہ اتنی بڑی تعداد میں بیساکھیوں کی ضرورت سمجھی جاتی کہ چلنے پھرنے کا فَن انتہائی تکلیف دہ ہو جاتا ، اور ایک قسم کی ابجد تیار کرنے میں ایک مُدت درکار ہوئی۔ ( ملاحظہ ہو  Tommy Thompsonکی کتاب  The A. B. C of our Alphabet )۔ یہ سب کچھ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لکھائی کی قسم کو بدلنا یا اُس قِسم کے ڈھنگ طریقہِ کا ابتدائی مرحلہ طِے کرنا نہائت مشکل ہوتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے کہ لسانیاتی اصولوں کے تحت بھی رسم الخط میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ ایک مثال سی بات واضح ہو جائے گی۔ انگریزی کی بڑی آکسفورڈ ڈکشنری اور حال ہی میں چَھپنے والا اُس کی چار جِلدوں میں تکملہ (Supplement) میں اصواتیاتی تلفظ(Phonetic pronunciation)  دیا گیا ہے، مگر وَیبسٹر کی تیسری نئی انٹرنَیشنل ڈکشنری میں صوتیائی تلفظ دیا گیا ہے ۔ پنجابی کی ایک لُغت میں تلفظ بغیر " ہجاءِ ثانی" یعنی  A.J. Ellis کے Palaeotype کی مانند تلفظ دکھانے کی کوشش تو کی گئی ہے۔ مگر اردو لُغات میں چہرۂ لفظ دینے کے علاوہ لسانیاتی اصولوں پر لفظ کا تلفظ دینا  کہیں نظر سے نہیں گزرا۔

زندہ زبانیں ہمیشہ ترقی کی راہ پر گامزن رہتی ہیں، مگر کسی منظم ادارہ کی سرپرستی کے بغیر توڑ پھوڑ کی باقاعدہ نگرانی نہیں ہو سکتی۔ نتیجہ یہ کہ قِرائَت کی بجائے قِرأَت زیادہ بولا جاتا ہے۔ احسان دانش نے  "مَشعل" کے لفظ کو "مِشعل" کہنا پسند کیا کیونکہ اُنہیں یہی تلفظ پیارا محسوس ہوتا تھا۔  پر " جگہ" کی جمع "جگہائیں" بھی خبروں میں سُننے میں آ جاتی ہے۔ تلفظ میں الف کو دبانے کا مرض تو مِرزا غالب نے بھی بڑی شِدّت سے محسوس کیا تھا۔ مثلا ً مقامات کو مَقَمات بولنا۔ اس کے علاوہ امالہ کو صحیح طور پر نہ بُلانابھی عَیب سمجھا جاتا رہا ہے، مگر لِکھائی میں یہ تنازعہ ابھی تک جاری ہے کہ مثلا ً  لفظ "جُمعہ" کا امالہ آخر کے حرفِ ہاء کو یائے مجہول سے بدل کر لکھنے کی بجائے عَین کے نیچے صرف زیر (جمعہِ) ڈال دینا کافی ہے۔ آمنہ خاتون نے تو یہاں تک مہم چلائی کہ عربی کا کوئی لفظ جب اردو میں عام ہو جائے تو اس کی جمع وغیرہ جہاں تک ہو سکے صرف اردو کے قاعدوں سے بنا کر استعمال کی جائے، مثلاً "عالم" کی جمع "عُلماء" استعمال کرنے سے منع کیا، مگر اس کے اُلٹ حال ہی میں روزنامہ جنگ راولپنڈی مجریہ 13 جولائی 1984ء میں پروفیسر شیر علی کاظمی نے تو یہاں تک تجویز کر دیا کہ اردو قواعد میں "سکُول کی جمع   ز  شامل کر کے "سکُولز" بنانے کا اصول شامل کر لینا چاہئے، مثلا ً  کرکٹ میں اس نے بِیس رنز بنائیں۔ انگریزی زبان کا اثر اردو پر اتنا پڑا کہ ہجاءکرنے میں  "الف بے زبر اَب" کہنے بجائے بچّوں کو " الف زبر بے اَب " پڑھایا جاتا ہے، حالانکہ  اردو کا محاورہ  " رے   واؤ    زبر  رَو  ہو جانا " ہِجا کا صحیح اصول بتا رہا ہے ۔ اسی طرح پہاڑے یاد کرنے میں " برکت دُونی دُونی" کی بجائے بچوں کو  two ones are two کے رنگ پر " دو ایکم دو" سِکھایا جاتا ہے۔ ہماری گِنتی کو انگریزی رنگ پر ڈھالنے کے لئے ایک شخص نے تو روزنامہ جنگ راولپنڈی مجریہ 13 جولائی 1963ء میں یہاں تک تجویز کر دیا تھا کہ مثلاً    forty oneکی طرز پر ہمیں ( اکتالِیس کہنے کی بجائے) "چالِیس ایک" کہنا چاہئے۔ Psychology  کا ترجمہ ذہنیات کی بجائے نفسیات کیا جاتا ہے؛ دیکھو روزنامہ جنگ راولپنڈی مجریہ 25 اپریل 1969ء۔

الف بے کی پوری پٹی ۔  Shahmukhi Alphabet, Punjabi Lesson - 1
پنجابی کس طرح لکھی اور پڑھی جاۓ  Punjabi Shahmukhi Script, How to read and write
مُلتانی - زبان یا بولی   Multani or Saraiki: Dialect or Language
پنجابی زبان کی مُلتانی بولی   
مُلتانی کی مخصوص آوازیں    Sounds of Multani that make it different from other Dialects of Punjabi
پنجابی اصوتیات   Punjabi Phonetics
پنجابی قاعدہ   
پنجابی زبان اور رسم الخط Punjabi Script and Punjabi Language
پنجابی کے کچھ الفاظ کی املاء  Words used more often
پنجابی زبان کی بولیاں   Punjabi Language and Dialect



کھوج کے لئے الفاظ بغیر اعراب  ( یعنی زیر زبر وغیرہ ) کے لکھیں۔


Back to Previous Page

دو کِیہ  آکڑ  آکڑ  چَلنا
کھاءِ خوراکاں تے پَہن پوشاکاں،  کیہ جَم دا  بَکرا  پَلنا
ساڈے  تن ہَتھ  مِلک تُساڈا،   کیوں جُوہ  پَرائی  مَلنا 
کہے  حسین  فقیر  سائیں  دا،   اَنت  خاک   وِچ   رَلنا
شاہ حسین



ایتھے لکھے گئے کئی مضمون پنجابی وکیپیڈیا تے اردو ویب محفل جیهی ویب سائیٹ اتے کاپی کر کے آپنیا ناواں نال لائے هوئے هن ۔ بهت هی افسوس دا مقام هے۔ یاد رهووے ایهه کتاب دی شکل وچ چھپ وی چکے هے۔

بیٹھک  

Pages


Desi Calendar

For better view the web site requires the download of ; 'Roz Urdu Punjabi Nastaleeq Shahmukhi Font.


مہر عورت کی ملکیت ہوتا ہے کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ اسے اس سے محروم کر دے ، البتہ اگر عورت چاہیے تو اپنی خوشی سے اس میں سے چھوڑ بھی سکتی ہے۔